قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر: شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
آ پ نے یقیناً محسوس کیا ہوگا پوری سائنس پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال کینسر کا ذریعہ‘ دیگر دھاتوں کے برتنوں کا استعمال بیماریوں کا ذریعہ باقاعدہ اس پر شور‘ واویلا‘ پورا اشتہار‘ پوری مہم کہ اپنے برتنوں کو استعمال کرتےہوئے ان پر نظر رکھیں اور احتیاط کریں کہ برتن ہماری زندگی پر کیا اثر ڈالتے ہیں اور ان برتنوں کا استعمال ہماری زندگی کو کتنا متاثر کرتا ہے۔
جب تانبے کے برتن تھے بے اولادی نہیں تھی
جب تانبے کے برتن تھے بے اولادی نہیں تھی‘ گلی میں کبھی کبھار کہیں کوئی گھر ایسے ملتا جہاں پتہ چلتا تھا کہ اس گھر میں اولاد نہیں‘ ورنہ بچے ہوتے تھے اور سنبھالے نہیں جاتے تھے‘ سفید پوشی عام اور بچے بھی عام تھے۔ برتن تانبے‘ پیتل اورکانسی کے تھے۔ آٹا گوندھنے والا تھال بھی تانبے پیتل کا‘ ہنڈیا پیتل‘ تانبے کی‘ گلاس‘ تھالی‘ کھلانے کے لیے چمچ حتیٰ کہ نہانے کے لیے جو برتن ہوتے تھے وہ بھی پیتل اورتانبے کے تھے۔ اکثر نہانے کیلئے گھاگھر ہوتی تھی یا پانی گرم کرنے کے لیے پیتل تانبے کےبرتن جسے کشمیری سماوار کہتے ہیں وہ ہوتے تھے۔ یعنی ہمارا کھانا‘ پینا اور پلانا سب تانبے میں ہوتا تھا اور دھات میں ہوتا تھا‘ اس کے چھوٹے چھوٹے ذرات ہمارے جسم کو صحت‘ تندرستی‘ توانائی دیتے جاتے تھے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ذرات کیسے جاتے ہوں گے؟ آئیں! آپ کو ایک مثال دیتے ہیں۔گردے میں پتھری کیسے بنتی ہے؟ کیا انسان پتھر اور کنکر نگلتا ہے‘ ہرگز نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے نظر نہ آنے والے ذرات گردے میں اٹکتے اٹکتے بعض اوقات بیر جتنی پتھری اور کھجور جتنی پتھری اس سے کم یا زیادہ بن جاتی ہے۔ یہ پتھر کہاں سے آیا؟ اور کیسے بنا یہی چھوٹے چھوٹے نظر نہ آنے والے ذرات ہی تو تھے جو پتھری کا ذریعہ بنے‘ بالکل اسی طرح دھاتی برتنوں سے بھی نظر نہ آنے والے ذرے ہمارے جسم میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہی صحت کا وجود بن جاتے ہیں۔
قبل ازوقت بڑھاپا اور عینک کا وجود نہیں تھا
جب ہم تانبے کے برتن کو استعمال کرتے تھے قبل ازوقت بڑھاپا نہیں تھا‘ عینکیں نہیں تھیں‘ نظر کمزور نہیں تھی‘ صحت‘ طبیعت‘ تندرستی‘ شفاء اور جسم میں توانائی تھی۔ جسم بے مثال تھا اور لمبی عمریں تھیں‘ مشقت‘ محنت کرنے والے بوڑھے تھے اور وہ مشقت اور محنت کرتے تھے کہ آج کے جوان حیرت زدہ ہوجائیں یا پھر تھوری دیر کے بعد ان کا سانس پھول جائے۔ کمر دُھری ہوجائے‘ ٹانگیں تھرتھرا جائیں‘ سر چکرا جائے‘ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے اور چاروں شانے چت ہوجائیں۔ جس تھوڑے سے کام کا اثر جوانوں پر یہ ہوتا ہے‘ وہی بوڑھے سالہا سال یہی کام کرتے تھے لیکن برتن اور تھے۔ کیا پلاسٹک کے برتن کا اثر ہوتا ہے تو پھر تانبےکے برتن کا اثر نہیں ہوتا یہ کیسے ناممکن ہے؟
نہ مریض تھے اور نہ ٹیسٹ لیبارٹریاں
ایک وہ وقت تھا جب ٹیسٹ تھے نہیں اور اگر کہیں کسی بڑے شہر میں لیبارٹری ہوتی تھی تو ویران پڑی ہوتی تھی کیونکہ مریض نہیں تھے اور کوئی ٹیسٹ کروانے والا آتا بھی تھا تو ٹیسٹ صاف اور کلیئر ہوتا تھا کیوں؟ سادہ غذائیں اور دیسی برتن ان کی زندگی میں صحت گھولتے تھے‘ نہ خون خراب‘ نہ جگر متاثر‘ نہ گردے مرجھائے ہوئے‘ نہ دل ناراض‘ نہ دماغ ویران اور پریشان‘ نہ آنکھیں دھنسی ہوئی اور کمزور‘ نہ اعصاب شل‘ نہ ٹانگیں پتھرائی ہوئی اور نہ ہی جسم کی خاص قوتیں کوچ کرگئیں‘ ایسا ہرگز نہیں۔
شادیوں کا رواج اور مزاج
اس سے پہلے شادیوں کا رواج زیادہ تھا اور شادیاں بھی زیادہ بچے بھی زیادہ‘ عرب کی زندگی اٹھا کر دیکھیں اب بھی ان کی شادیاں زیادہ ہیں برصغیر میں بھی شادیوں کا عمومی رواج اور مزاج تھا کہ شادیاں زیادہ ہوتی تھیں کیوں؟ اس کی وجہ وہ دیسی چھوٹے چھوٹے ذریعے بچپن سے پچپن تک جاتے تھے‘ جو انسان کو صحت مند تندرست اور ایسا تندرست رکھتے تھے جس صحت مندی اور تندرستی کی وجہ سے انسان کی ازدواجی زندگی خوشحال ہوتی تھی اور اس کے ازدواجی مسائل نہیں ہوتے تھے لہٰذا ازدواجی زندگی کی تندرستی کا اثر معاشرہ اور زندگی پر پڑتا تھا اور گھریلو جھگڑے ناچاقیاں نہیں ہوتی تھیں ہر شخص مطمئن ہوتا تھا ۔
برتن کا معاشرے پر اثر
سائنس ایک انوکھا نکتہ اٹھاتی ہے اگر میری بات کو مزید تفصیلات سے جاننا اور پڑھنا چاہیں تو انٹرنیٹ کی دنیا میں تلاش کرلیں‘ برتنوں کا زندگی‘ لہجہ اور معاشرے پر بہت اثر پڑتا ہے‘ پہلے تنگ گلاس آئے‘ تنگ برتن آئے اب وہی پھر سائنس ہے جو کشادہ گلاس‘ کشادہ چائے کے کپ اور کشادہ برتن لارہی ہے‘ آخر کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ برتن ہمارے معاشرے‘ مزاج‘ طبیعت پر ایک گہرا اثر ڈالتے ہیں اس کی وجہ سے ہم اپنے مزاج کو بناتے یا بگاڑتے ہیں۔
مہنگے داموں پرانے برتن میں کھانا
بالکل اسی طرح تانبے کے برتن ہماری طبیعت میں بہت زیادہ اثر ڈالتے ہیں‘ اس کی زندہ مثال آج کل موجود فوڈ اسٹریٹ یا ایسے بڑے بڑے مغل اعظم یا خانان خان یا لال قلعہ کے نام پر ریسٹورنٹ ہوٹل ہیں جہاں لوگ تانبے کے برتنوں اور پرانے برتنوں میں مہنگے داموں کھانا کھانے جاتے ہیں۔ مجھےکئی لوگوں نے بتایا کہ سیرو تفریح کی جگہ تو اور بھی بہت ہے لیکن جب یہاں جاکر ان برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں ہماری طبیعت پرسکون‘ ذہن کا دباؤ‘ تناؤ جسے ہم ڈیپریشن اور ٹینشن کہتے ہیں‘ وہ ختم اور ہمارا جسم ہلکا پھلکا حتیٰ کہ وہاں کا ایک دفعہ کا کھانا ہمیں ہفتوں اور مہینوں مطمئن اور پرسکون رکھتا ہے۔
کیا خیال ہے آپ پرسکون نہیں رہنا چاہتے؟
کیا خیال ہے آپ پرسکون نہیں رہنا چاہتے؟ آپ اپنی طبیعت کو اس تھوڑی سی زندگی میں بے چین پریشان رکھنا چاہتے ہیں‘ کیوں رکھنا چاہتے ہیں آپ ہر حال میں آج کے بعد فیصلہ کریں کہ ہم نے تانبے کے برتن استعمال کرنے ہیں اور تانبے کے برتن کو اپنی زندگی میں اوڑھنا‘‘ بچھونا‘ کھانا پینا‘ پلانے کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ لہٰذا صحت کی تلاش بھی ایسے ہے جیسے ایمان اور دین کی تلاش‘ کیوں؟ صحت مند جسم ہی عبادت، تسبیح‘ تلاوت کرسکے گا۔ ورنہ ہمارا جسم بیمار ہوگا۔ بیمار نہ دین کا‘ نہ دنیا کا‘ نہ معاشرے کا اور نہ ہی سماج کا۔ بیمار بوجھ ہوتا ہے بوجھ‘ بوجھ ہی ہوتا ہے اس کا نفع نہیں ہوتا۔ آئیے آج کے بعد تانبے کے برتن تلاش کریں کوئی مشکل نہیں اب بھی مل جاتے ہیں بس تلاش کرلیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں